جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

کیا شيخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف خروج کیا اوراس کے سقوط کا سبب بنے

9243

تاریخ اشاعت : 08-01-2004

مشاہدات : 18446

سوال

بعض لوگ محمد بن عبدالوھاب ( رحمہ اللہ تعالی ) تعالی کی بے عزتی کرتے ہیں اوریہ تہمت لگاتے ہيں کہ انہوں نے خلافت عثمانیہ اورخلیفۃ المسلمین کے خلاف خروج کیا تھا ، اس لیے وہ مسلمانوں کے دشمن ہيں ، اوران کا جدال و بحث اسی مسئلہ کی اردگرد ہی گھومتا ہے ،تو کیا یہ صحیح ہے ؟
تویہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ کوئ بھی شخص امیرالمومنین کے خلاف لڑائ کرے باوجود اس کےکہ وہ خلیفہ نماز پڑھتا اورزکاۃ وغیرہ بھی ادا کرتا ہو ؟
اوروہ یہ بھی کہتے ہیں انہوں نے انگريز فوج کے ساتھ اتفاق کیا تھا اوران کے ساتھ مل کرمسلمانوں کے خلاف لڑائ کی ۔
میں امید کرتا ہوں کہ آپ مجھےاس تاریخی مسئلہ کا مفصل جواب دیں گے اورمیرے لیےاس کی وضاحت کریں گے کہ ہم کسے سچا مانيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


دنیامیں جوشخص بھی خیرو بھلائ کےکام کرے اس کے انسانوں اورجنوں میں دشمن بہت ہوتے ہیں حتی کہ اللہ تعالی کے انبیاء بھی اس سے محفوظ نہيں رہ سکے ۔

زمانہ قدیم سے علماء کرام کے بھی دشمن اورمخالف پاۓ جاتے رہے ہیں اورخاص کرحق کی دعوت دینے والوں کوتو لوگوں کی بہت ہی سخت قسم کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑ‌ا اس کی مثال شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی ہیں جنہوں نے بعض حاسدین سے بہت تلکلیف اٹھائ جنہوں نے ان کوقتل کرنا بھی حلال کردیا تھا اورکچھ نے ان پر گمراہ اورمرتد ہونے کی تہمت لگائ ۔

اورشيخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی بھی ان مظلوم علماء کرام میں سے ایک شخص تھے جن کےبارہ میں لوگوں نے فتنہ پھیلانے کےلیے بغیر علم کے بہت کچھ کہا اوراس کام پر انہیں صرف حسد و بغض اوراپنے اندر بدعات کے رچ بس جانے کے علاوہ کسی اورچیز نے نہیں ابھارا یاپھر اس کا سبب جھالت اورخواہشات والوں کی تقلید ہے ۔

آپ کے سامنے شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کےبارہ میں کچھ شبہات اوران کا رد پیش کرتے ہیں :

شيخ عبدالعزیز العبداللطیف رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

سلفی دعوت کے کچھ مخالفین کا دعوی ہے کہ شيخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی نے خلافت عثمانیہ کے خلاف خروج کیااورجماعت میں افتراق کا باعث بنے اورسمع و اطاعت کوختم کرکے رکھ دیا ۔

دیکھیں کتاب : دعاوی المناوئین لدعوۃ الشيخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی ص ( 233 ) ۔

اورایک دوسری کتاب میں کچھ اس طرح رقمطراز ہیں :

اور " عبدالقدیم زلوم " کا دعوی ہے کہ وھابیوں کی دعوت کا ظاہر ہونا ہی خلافت عثمانیہ کے سقول کا سبب تھا ۔

اوراس کا یہ بھی کہنا ہے کہ : دولۃ اسلامیہ میں وھابیوں نے محمد بن سعود اورپھر اس کے بیٹے عبدالعزيز کی زير قیادت شورش بپا کی توبرطانیہ نے انہیں مال واسلحہ مہیا کیا اوران کی یہ شورش سلطان و خلیفہ کے تابع بلاد اسلامیہ پرقبضہ کرنے کے لیے مذھبی اساس پرکی ۔

یعنی انہوں نے انگریز کے تعاون اوراس کے ابھارنے کی بنا پر خلیفہ کے مقابلہ میں تلوار اٹھائ اوراسلامی لشکر سے لڑائ کی جو کہ امیر المومنین کا لشکر تھا ۔ کیف ھدمت الخلافۃ ( خلافت کا خاتمہ کیسے ہوا ) ص ( 10 ) ۔

خلافت و دولۃ ‏عثمانیہ کےخلاف محمد بن عبدالوھاب کے خروج کے بارہ میں پاۓ جانے والے شبہ کا جواب ذکر کرنے سے قبل مناسب ہے کہ ہم شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کا خلیفۃ اورآئمۃ المسلمین کی سمع واطاعت کے بارہ میں عقیدہ ذکر کردیں ۔

ان کا عقیدہ تویہ تھا کہ چاہے وہ خلیفہ اورامیر نیک و صالح ہو یا پھر فاسق و فاجر ہو جب تک وہ معصیت کا حکم نہ دے اس کی سمع واطاعت واجب ہے اس لیے کہ اطاعت صرف اورصرف نیکی کے کام میں ہوتی ہے ۔

شیخ الامام اپنے ایک خط جوکہ اہل قصیم کولکھا تھا میں کہتے ہیں :

میرا عقیدہ ہے کہ امام المسلمین کی سمع واطاعت کرنی چاہیے چاہے وہ امام نیک و صالح ہو یا پھر فاسق و فاجر جب تک وہ نیکی کا حکم دیتا رہے اس کی اطاعت واجب ہے ، اورجب اللہ تعالی کی معصیت کاحکم دے اس میں اس کی اطاعت نہی جاسکتی ۔

اورجوخلیفہ بنا دیاجاۓ اورلوگ اس پرراضي ہوں اورلوگ اس کے پاس جمع ہوجائيں اوریا پھر وہ تلوار کے زورسے ان پر غالب ہوحتی کہ وہ خلیفہ بن جاۓ تواس کی اطاعت واجب ہے اوراس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے ۔

دیکھیں : مجموعۃ مؤلفات الشیخ ( 5 / 11 ) ۔

اورایک دوسری جگہ پر شيخ یہ کہتے ہیں :

اجتماعیت کی تکمیل میں یہ بھی شامل ہے کہ جو بھی ہم پرامیر بنادیا جاۓ ہم اس کی سمع واطاعت کریں اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ۔

مجموع مؤ‎لفات الشیخ ( 1 / 394 ) دعاوی المناوئین کے حوالہ سے ( 233 - 234 ) ۔

اورشیخ عبدالعزيز العبداللطیف کہتے ہیں :

اوراس مختصر سے نوٹ کے بعد کہ جس میں شیخ رحمہ اللہ تعالی کا آئمۃ المسلمین چاہے وہ نیک ہویا فاجر جب تک وہ اللہ تعالی کی معصیت کا حکم نہ دے اس کی سمع وطاعت کے وجوب کا عقیدہ سامنے رکھا گیا ہے ۔

تواب ہم اس ایک اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جواس شبہ کا جواب ہے ، یہاں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ :

کیا " نجد " اس دعوت کا محل اوروطن جہاں پریہ پروان چڑھی تھی دولۃ عثمانیہ کے ماتحت تھا ؟

ڈاکٹر صالح عبود اس کا جواب دیتے ہوۓ کہتے ہیں :

نجدتک عمومی طورپرخلافت عثمانیہ کا نفوذ ہی نہیں ہوا اورنہ ہی اس کی حکومت وہاں تک آئي اور نہ ہی وہاں پر کوئ خلافت عثمانیہ کی طرف سے گورنر ہی مقرر ہوا ، اورجب شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کی دعوت کا ظہورہوا تواس وقت ترکی حکومت کی کوئ فوج بھی وہاں نہیں تھی

اس تاریخی حقیقت کی دلیل دولہ عثمانیہ کی اداری تقسیمات کا استقرار بھی ہيں جن میں سے ایک ترکی لیٹر جس کا مضمون " آل عثمان کے دیوانی رجسٹرمیں قوانین کے مضامین " ہے یعنی دیوانی رجسٹر میں آل عثمان کے قوانین ،جسے یمین افندی نے تالیف کیا ہے جو کہ خاقانی دفتر کا 1018ھ الموافق 1609میلادی میں خزانچی تھا ۔

تو اس بیان سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ گیارہ ھجری کے اوائل میں دولت عثمانیہ بتیس 32 حکومتوں میں منقسم تھی جن میں چودہ عرب حکومتیں تھیں جن میں نجد شامل نہیں تھا سواۓ احساء کا علاقہ لیکن وہ بھی اگر ہم اسے نجد میں شامل کریں توپھر۔۔۔

دیکھیں کتاب : عقیدہ الشيخ محمد بن عبدالوھاب واثرھا فی العالم الاسلامی ( نشر نہیں ہوئ ) ( 1 / 27 ) ۔

اورڈاکٹر عبداللہ عثیمین کا کہنا ہے :

اورجو کچھ بھی ہو پھر بھی شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کی دعوت کے ظہور سےقبل نجد نے عثمانیوں کا نفوذ مباشر نہیں دیکھا ، اوراسی طرح نجد نے کسی طرف سے بھی کوئ قوی نفوذ نہيں دیکھا جو وہاں حوادث پر اپنا وجود برقرار رکھے اس کے اطراف میں نہ تو بنوجبر کا نفوذ تھا یا پھر بنی خالد اورنہ ہی اس کے کسی کونے میں اشراف کا نۓ سیاسی استقرار کا نفوذ ہوا ۔

تونجدی علاقوں کی جنگیں اورلڑائياں قائم رہیں اوران کے مختلف قبائل کے درمیان جنگ وجدال بہت تیزي سے چلتا رہا ۔

دیکیھیں : محمد بن عبدالوھاب حیاتہ وفکرہ ص ( 11 ) بحوالہ دعاوی المناوئین ( 234 - 235 ) ۔

اوراس مضمون اوربحث کومکمل کرنے کے لیے ہم فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالعزيز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ تعالی کا اس اعتراض کے بارہ میں قول ذکر کرتے ہيں :

میرے علم اوراعتقاد کے مطابق شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی نے دولۃ خلافت عثمانیہ کے خلاف خروج نہيں کیا ، اورپھر نجد میں ترکیوں کی توامارت و سلطہ ہی نہیں تھا بلکہ نجد کے علاقے میں چھوٹی چھوٹی امارتیں اوربہت سی بستیاں پھیلی ہوئ تھیں ۔

اوران میں سے ہر ایک شہر یا علاقے اور بستی پر چاہے وہ جتنی بھی چھوٹی تھی امارت قائم تھی اورایک مستقل امیر تھا ۔۔۔ اوران امارتوں کے درمیان لڑائياں اورجنگيں اوراختلافات رہتے تھے ، اورشيخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی نے خلافت عثمانیہ کے خلاف خروج نہیں کیا ۔

بلکہ ان کا خروج تواپنے علاقے میں ان غلط اورفاسد حالات کے متعلق تھا جو پیدا ہوچکے تھے انہوں نے اللہ تعالی کے لیےجہاد کیا اوراس کا حق بھی ادا کیا اوراس میں صبر کیا حتی کہ اس دعوت کا نور اورروشنی دوسرے شہروں اورعلاقوں تک جا پہنچی ۔

کیسٹوں پر ایک ریکارڈ مذاکرہ بحوالہ : دعاوی المناوئین ص ( 237 )

ڈاکٹر عجیل النشمی کہتے ہیں :

شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی عنہ کی زندگی میں خلاف عثمانیہ کی جانب سے نہ تو قابل ذکر اختلاف اورنہ ہی دشواری ہی پیش آئي اورکسی ساکن کومتحرک بھی نہ کیا حالانکہ ان کے زندگی میں خلافت عثمانیہ کے تین سلطان بدلے ۔۔۔ دیکھيں میگزین " مجلۃ المجتمع عدد نمبر ( 510 ) ۔

اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے خلافت عثمانیہ کے بارہ میں شیخ کےتصورکا عکس پیش کرتا ہے تو پھر شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی عنہ کی دعوت کی تصویر خلافت عثمانیہ کے پاس کیسی ہوگی ؟

ڈاکٹر نشمی اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں :

شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کی تحریک دعوت کی تصویر کوخلافت عثمانیہ کے ہاں غلط رنگ دیا گيا تودولت عثمانیہ نے شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کی تحریک دعوت کے خلاف عداوت کا رویہ اختیار کرلیا جس کا سبب حجاز یا پھر بغداد کے گورنروں کے ارسال کردہ رسائل تھے یا پھر ان افراد کی بنا پر جوکچھ خبریں لے کر استانہ پہنچتے تھے ۔

دیکھیں میگزین المجتمع عدد نمبر ( 504 ) بحوالہ دعاوی المناوئين ص ( 238 - 239 ) ۔

اورزلوم کا یہ دعوی کہ شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کی دعوت ہی خلافت عثمانیہ کے سقوط کا سبب بنی ، اورانگریزنے خلافت عثمانیہ کے سقوط میں وھابیوں کی مدد وتعاون کیا :

تواس لمبے چوڑے دعوی کے جواب میں محمود مھدی استنبولی کا کہنا ہے :

اس دعوی کے لکھنے والے پرضروری تھا کہ وہ اپنی اس راۓ کے ثبوت میں دلائل بھی پیش کرتا ، زمانہ قدیم میں شاعر نے کہا تھا :

اورجب دعوی کرنے والا اپنے دعوی پر کوئ بالنص دلیل قائم نہ کرسکے تووہ اس کے بے وقوفی کی دلیل ہے ۔

اوریہ بھی علم ہونا چاہیے کہ تاریخ اس بات کوذکر کرتی ہے کہ ان انگریزوں نے تواس دعوت کی ابتدا ہی سے عالم اسلام کی بیداری کے خوف سے مخالف کی تھی ۔

دیکھیں کتاب : الشيخ محمد بن عبدالوھاب فی مرآۃ الشرق والغرب ص ( 240 ) ( شیخ محمد بن عبدالوھاب مشرق و مغرب کے آئینہ میں ) ۔

اوران کا یہ بھی کہنا ہے :

اوریہ ایک عجیب و غریب اوررولانے والی مضحکہ خيز بات ہے کہ یہ پروفیسر صاحب شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی عنہ کی تحریک پر تہمت لگاتے ہیں کہ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے عوامل میں سے ایک ہے ۔

لیکن یہ علم ہونا چاہیے کہ یہ تحریک 1811 میلادی میں شروع ہوئ اورخلافت عثمانیہ کا سقوط 1922 میلادی میں ہوا ۔ حوالہ سابقہ ص ( 64 ) ۔

انگریز کا وھابی تحریک کے خلاف ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ انہوں نے ابراھیم پاشا کووھابیوں کے خلاف درعیہ کی لڑائ میں کامیابی حاصل کرنے پر مبارکباد دینے کے لیے کیپٹن فورسٹر سیڈلر کوبھیجا تھا ۔

اس پرمستزاد یہ کہ ان کا اس برطانوی تحریک جو کہ انہوں نے خلیج میں وھابی اعمال کوکم کرنے لیے قائم کررکھی تھی کے ساتھ تعاون کا میلان بھی پایا جاتا تھا ۔

بلکہ اس لیٹر میں توحکوت برطانیہ اورابراھیم پاشا کے درمیان وھابیوں کے نفوذ کی مکمل سرکوبی کرنے پر اتفاق کی رغبت کا اظہار کیا گيا ہے ۔

اورمولانا محمد منظورنعمانی صاحب کہتے ہیں :

ھندوستان میں انگریز نے شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کے مخالف حالات کوایک فرصت اورسنہری موقع سمجھتےہوۓ اپنے مخالفین کووھابی کہنا شروع کردیا اوراپنے خلاف اٹھنے والی تحریک کو وھابیت کا نام دیا ۔

اوراسی طرح انگريز نے علماء دیوبند کوبھی انگريز کی مخالفت کرنے کی بنا پر وھابی کہتا شروع کیا اوران پر تنگی شروع کردی ۔

دیکھیں کتاب : دعایات مکثفۃ ضد الشيخ محمد بن عبدالوھاب ص ( 105 - 106 ) ( شيخ محمد بن عبدالوھاب کے خلاف بڑے بڑے الزامات ) ۔

توان مختلف بیانات اور شیخ محمد بن عبدالوھاب کی مؤلفات و رسائل میں سے واضح علمی دلائل و براھین سے اس شبہ کی بے جانی کھوٹا پن اور باطل ہونے کا انکشاف ہوتا ہے ، اوراسی طرح منصف قسم کے مؤ‎رخوں کے تاریخ حقائق سے بھی اس کا بطلان واضح ہورہا ہے ۔ دعاوی المناوئين ( 239 - 240 ) ۔

آخرمیں ہم شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کے بارہ میں زبان درازی کرنے والے ہر شخص کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اس سے باز آجاۓ اورسب معاملات میں اللہ سبحانہ وتعالی کا تقوی اورڈر اختیار کرے

ہوسکتا ہے اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرلے اوراسے سیدھے راہ کی ھدایت نصیب فرماۓ ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب